حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکمرانی کی کامیابی کے چند اصول| راحیل حسرت|Some principles of the success of Hazrat Umar's rule





 یکم محرم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے اس مناسبت سے انکی حکمرانی کی کامیابی

 کے چند اصول لکھنے کی کوشش کی ہے کہ 22 لاکھ مربع میل پہ ایک شخص نے کیسے کامیاب حکمرانی کر لی ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ان کی حکومت کے بنیادی ڈھانچے کے چند اصول دیکھتے ہیں 

نمبر 1۔ آپ نے شوری قائم کی جو اہم معاملات کے علاؤہ انتظامی امور بھی طے کرتی تھی ۔

نمبر 2۔ اہم فیصلہ شوری کی باہمی مشورے کے ساتھ ساتھ الصلوہ الجامعہ کا اعلان کر کے عوام سے بھی رائے لی جاتی رہی ۔

نمبر 3۔ہر ایک کو حکومت پر آزادانہ تنقید کا حق حاصل تھا اس کی مثال موجود ہے کہ ایک بار عوامی اجلاس میں کسی شخص نے حضرت عمر کو کہا کہ اے عمر خدا سے ڈرو تو کسی نے اس کو چپ کروانے کی کوشش کی تو خضرت عمر نے چپ کروانے والے کو منع کیا اور کہا کہ اگر یہ شخص خاموش رہا تو اس کے آنے کا کیا فائدہ؟ 

نمبر 4 ۔حاکم کا کوئ شاہی پروٹوکول نہیں ۔ کوئ دربان نہیں ہر شخص اپنی عرضی پیش کر سکتا تھا اور حضرت عمر سننے کو تیار رہتے ۔بلکہ یوں کہہ لیں کہ بالکل عوامی حاکم تھے ۔

   ممالک کی تقسیم اور عہدیداروں کی تقرری اور اسکے اصول وضوابط ۔

نمبر 1 تمام ممالک کو آپ نے گیارہ صوبوں میں تقسیم کیا (مکہ ۔مدینہ۔ شام۔ جزیرہ۔ کوفہ ۔ بصرہ۔ مصر۔ فلسطین ۔ خراسان ۔ آذربائجان ۔فارس )

 ہر صوبے کا گورنر ہوتا ، امیر منشی ۔ امیر عسکر کلکٹر ۔ پولیس افسر ۔خزانچی اور قاضی (جج) بعض دفعہ صوبے کا گورنر ہی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا 

نمبر 2. عہدے کے لیے کسی کو منتخب کرنے کے معاملے میں نہایت احتیاط سے کام لینا حتی کہ اس بارے میں قائم کردہ شوری سے بھی مشورہ کر لینا بعض دفعہ عہدے پر کسی کو مقرر کرنے کا فیصلہ عوام کی مرضی سے بھی ہو جاتا ۔ اور لوگوں کے اصرار پہ معزول بھی ہو جاتے ۔ 

نمبر 3 ہر گورنر کی تقرری کے وقت اس کو ایک خط دیا جاتا جس میں اسکی آئینی حد مقرر ہوتی تھی اور اس خط کو عوام (جس کا گورنر بنایا جا رہا ہے )کے سامنے پڑھنے کا پابند کیا جاتا تھا تاکہ آئین شکنی نہ کر سکے ۔ 

نمبر4 ۔ عہدیداروں سے حلف لیا جاتا تھا ۔ سواری کے لیے ترکی گھوڑے استعمال نہیں کریں گے 

باریک کپڑے نہیں پہنے گے 

چھنا ہوا آٹا نہیں کھائیں گے 

اہل حاجت کے لیے دروازے کھلے رکھیں گے ۔

نمبر 5۔ قومی احتساب بیورو ۔ nab۔ ہر عہددار کی تقرری کے وقت اس کے موجود اثاثہ جات کی فہرست تیار کی جاتی اور واپسی یا معزولی کے وقت اس فہرست کے مطابق جو اضافی اثاثے ملتے تو اس کا احتساب کیا جاتا اور زائد مال بیت مال میں جمع ہو جاتا ۔ 

نمبر 6 کھلی کچہری ۔یا عوامی احتساب ۔ سالانہ حج کے موقع پر تمام گورنرز خاضر ہوتے اور عوام میں یہ اعلان کیا جاتا کہ اگر کسی کو اپنے گونرر یا عامل سے شکایت ہے تو وہ مجع عام میں بیان کرے اگر کسی کے بار میں شکایت ہوتی تو عوام کے سامنے سرزنش ہوتی اور عہدے سے معزول کر دیا جاتا ۔

نوٹ ۔ صرف دو صحابہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت عمر کی باز پرس سے محفوظ رہے . حضرت ابو عبیدہ اور دوسرے حضرت امیر معاویہ۔ 

مذکورہ بالا اصولوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص جس کے حکمرانی کے اس طرح کے اصول ہوں وہ 22لاکھ مربع میل تو کیا پوری دنیا پر بھی حکمرانی کر سکتا ہے ۔ آپ کے چند قائم کردہ محکمے یا ادراے ۔عدلیہ ۔ پولیس ۔ جیل خانہ جات۔ مالگزاری ۔ بیت المال ہر صوبے میں قائم کرنا ۔ 

یہ سب اصول، قانون ، محکمے آج بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی کامیاب حکومت اور گڈ گورننس نظر نہیں آ رہی کیونکہ حکومت اور عوام دونوں بدعنوانیوں کے موقعے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے خدا سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہم کو قدرتی اور حکومتی آفات سے محفوظ رکھے آمین 

(مذہبی  اسکالرحضرت علامہ راحیل حسرت مدنی )

Post a Comment

0 Comments