تحویل قبلہ
دوسرے پارہ کی اِبتدا تحویل قبلہ کے تعلق سے سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۲ سے ہوتی ہے۔
مسجدحرام میں
خانہ کعبہ ہے
جس سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مہاجر صحابہ کو شدید محبت تھی، اس سے قبل بیت المقدس کو قبلہ کی حیثیت حاصل تھی، مدینہ ہجرت کے بعد مہاجر صحابہ کے لیے بڑی آزمایش تھی کہ آیا وہ کعبہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں یا نبی کریم علیہ السلام کی اتباع کو ترجیح دیتے کر بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام جب اس آزمایش میں کامیاب ہوگئے تو تاجدارِ کائنات علیہ السلام کی بار بار دعا اور آسمان کی طرف رخِ انور کرنے کے نتیجے میں اللہ نے مسجدحرام کو قبلہ بنانے کا حکم دیا۔
اس تحویل قبلہ کے بعد یہودی مسلمانوں پرطنزوطعنہ کے تیرپھینکنے لگے، جس کے جواب میں فرمایاگیا کہ تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ اور بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ تواس کا جواب دیا کہ تمام جہات مشرق ومغرب اللہ ہی کی ہیں وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے ۔ کسی بندے کو اعتراض کاحق نہیں ہے۔ اہمیت کسی سمت کی نہیں اللہ کے حکم کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں تمیز کے لیے تحویل قبلہ کاحکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اُتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافرو منافق کھل کر سامنے آجائیں گے۔
ان آیات کے مطالعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن ادب بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ شدتِ اشتیاق اور انتظارِ وحی میں بار بار آسمان کی
طرف اپنی مبارک نگاہیں اُٹھاتے تو تھے؛ مگر تحویل قبلہ کا سوال لب پر نہیں لاتے تھے کہ نہ معلوم مرضیِ مولاکیا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دینے کے فوراً بعد اہل ایمان پر اس نعمت عظمیٰ کا ذکر فرمایا ہے جو انھیں سراجِ منیر اور بشیرونذیرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں عطا ہوئی۔تومستقل قبلہ کا تعین بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور ہدایت وتعلیم کے لیے اس عظیم الشان ختمی المرتبت رسول کی بعثت بھی بے مثال فضل واِنعام ہے۔
تحویل قبلہ کی آیات کو علماے کرام نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے کم وبیش سولہ قواعد اخذ کیے ہیں ۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام محض چند ایسی مذہبی رسوم کا نام نہیں جو عبادت خانوں اور خانقاہوں میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ اس دین کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے، یہ ہر جگہ انسان کے ساتھ رہتا ہے گھر میں بھی اور بازار میں بھی، مسجد میں بھی اور مدرسہ میں بھی، سیاست وحکومت میں بھی اورتجارت ومعاشرت میں بھی۔ یہ مسلمانوں کی ہر جگہ نگرانی کرتا ہے اور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم اسے دیکھ کر اُٹھائے۔
تحویل قبلہ کی بحث کے دوران اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی کہ ہر انسان کا ایک معنوی قبلہ بھی ہوتا ہے جس کو وہ اپنا مطلوب ومقصود بنالیتا ہے۔ اب اس کے حصول کی خاطر وہ محنت ومشقت کرتاہے۔ اہل ایمان کے لیے مقابلہ کا اصل میدان نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا ہے۔ ایک روز اُن سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں نتیجے کا اعلان ہوگا کہ کون آگے نکلا اور کون پیچھے رہ گیاپارے کی اِبتدا تحویل قبلہ کے تعلق سے سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۲ سے ہوتی ہے۔ مسجدحرام میں خانۂ کعبہ ہے جس سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مہاجر صحابہ کو شدید محبت تھی، اس سے قبل بیت المقدس کو قبلہ کی حیثیت حاصل تھی، مدینہ ہجرت کے بعد مہاجر صحابہ کے لیے بڑی آزمایش تھی کہ آیا وہ کعبہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں یا نبی کریم علیہ السلام کی اتباع کو ترجیح دیتے کر بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام جب اس آزمایش میں کامیاب ہوگئے تو تاجدارِ کائنات علیہ السلام کی بار بار دعا اور آسمان کی طرف رخِ انور کرنے کے نتیجے میں اللہ نے مسجدحرام کو قبلہ بنانے کا حکم دیا۔
اس تحویل قبلہ کے بعد یہودی مسلمانوں پرطنزوطعنہ کے تیرپھینکنے لگے، جس کے جواب میں فرمایاگیا کہ تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ اور بیوقوف لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ تواس کا جواب دیا کہ تمام جہات مشرق ومغرب اللہ ہی کی ہیں وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے ۔ کسی بندے کو اعتراض کاحق نہیں ہے۔ اہمیت کسی سمت کی نہیں اللہ کے حکم کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرماں برداروں اور نافرمانوں میں تمیز کے لیے تحویل قبلہ کاحکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اُتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافرو منافق کھل کر سامنے آجائیں گے۔
ان آیات کے مطالعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن ادب بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ شدتِ اشتیاق اور انتظارِ وحی میں بار بار آسمان کی
طرف اپنی مبارک نگاہیں اُٹھاتے تو تھے؛ مگر تحویل قبلہ کا سوال لب پر نہیں لاتے تھے کہ نہ معلوم مرضیِ مولاکیا ہے۔ شاید اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دینے کے فوراً بعد اہل ایمان پر اس نعمت عظمیٰ کا ذکر فرمایا ہے جو انھیں سراجِ منیر اور بشیرونذیرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں عطا ہوئی۔تومستقل قبلہ کا تعین بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور ہدایت وتعلیم کے لیے اس عظیم الشان ختمی المرتبت رسول کی بعثت بھی بے مثال فضل واِنعام ہے۔
تحویل قبلہ کی آیات کو علماے کرام نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے کم وبیش سولہ قواعد اخذ کیے ہیں ۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام محض چند ایسی مذہبی رسوم کا نام نہیں جو عبادت خانوں اور خانقاہوں میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ اس دین کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے، یہ ہر جگہ انسان کے ساتھ رہتا ہے گھر میں بھی اور بازار میں بھی، مسجد میں بھی اور مدرسہ میں بھی، سیاست وحکومت میں بھی اورتجارت ومعاشرت میں بھی۔ یہ مسلمانوں کی ہر جگہ نگرانی کرتا ہے اور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم اسے دیکھ کر اُٹھائے۔
تحویل قبلہ کی بحث کے دوران اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی کہ ہر انسان کا ایک معنوی قبلہ بھی ہوتا ہے جس کو وہ اپنا مطلوب ومقصود بنالیتا ہے۔ اب اس کے حصول کی خاطر وہ محنت ومشقت کرتاہے۔ اہل ایمان کے لیے مقابلہ کا اصل میدان نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا ہے۔ ایک روز اُن سب کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں نتیجے کا اعلان ہوگا کہ کون آگے نکلا اور کون پیچھے رہ گیا
0 Comments