! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ محرم میں یزید کے فعل کو بنیاد بنا کر حضرت امیر معاویہ پر طعن کیا جاتا ہے یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ بیٹے کا عمل اس کا ذمہ دار باپ نہیں ہو سکتا بعض اوقات باپ ٹھیک نہیں ہوتا مگربیٹابہت اچھا ہوتا ہے دنیا میں نیکی بدی کا عمل شروع سے چل رہا ہے لہذا کسی بیٹے کے فعل کی بنا پہ باپ کو طعن وتشنیع کرنا درست نہیں ہے۔۔
اسی طرح احادیث میں یہ بھی أیا ہےحضرت حسن رضی اللہ عنہ بارے کہ۔۔یہ میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کروائے گا۔۔۔اسی طرح دوسری حدیث میں ایا ہے عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کہ انہیں باغیوں کا ایک گروہ شہید کرے گا حضرت عمار بن یاسر کو جنگ صفین میں شہید کیا گیا اس جنگ میں حضرت امیر معاویہ کا مقابلہ تھا حضرت علی سے اس حدیث کو دلیل بنا کر لوگ امیر شام پر طعن کرتے ہیں دوسری طرف حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو صلح ہوئی تھی وہ تو جنگ صفین کے بعد ہوئی تھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا حضرت امام حسن کو پتہ نہیں تھا کہ یاسر بن عمارکو شہید کر دیا گیا ہے اور ان کو شہید کرنے والا کون سا گروہ ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہے پھر اپ نے امیر شام کے ساتھ صلح کی حضرت امام حسن نے جو صلح کی تو مسلمان سمجھ کر رہے ہیں نا ۔۔۔دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرنے کی بات ہوئی تھی نا۔۔۔۔ امام
حسن کو پتہ تھا کہ عمار بن یاسر کو شہید کیا گیا ہے اور یہ بھی پتہ تھا کہ جس گروہ کی طرف
شہید کیا گیا اس میں امیر شامل تھے تو اب اس حدیث کا کیا معنی ہوگا جس کو بنیاد بنا کر لوگ امیر شام پر طعن کرتے ہیں ہم کہتے ہیں امیر شام ایک گروہ میں تھے حضرت علی دوسرے گروہ میں تھے دونوں طرف سے یہ نہیں چاہتے تھے کہ لڑائی ہو صلح کی بات چل رہی تھی لیکن جو باغی تھے جو دونوں طرف گھسے ہوئے تھے فسادی ان کی مرضی تھی کہ ہر حال میں لڑائی ہو اور ان کے اپس میں رابطے بھی تھے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو صلح کر رہے ہیں تو انہوں نے پھر اپس میں یہ طے کیا کہ جھوٹی موٹی ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کرو اپ ادھر سے ہم پر حملہ اور ہوں ہم اپ پر حملہ اور ہوں اس طرح سے گمسان کا رن پڑھے گا اور لڑائی شروع ہو جائے گی اور اس میں وہ کامیاب رہے اسی میں ا کر حضرت عمار بن یاسر شہید ہوئے تو اصل میں شہید کرنے والا وہ باغی گروہ تھا جو دونوں طرف گھسا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ امام حسن نے جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ یعنی امیر شام کے ساتھ صلح کی تو ان کی نظر میں بھی یہی تھا کہ باغی گروہ سے مراد یہ نہیں ہے اگر یہ ہوتے تو پھر ہمارے حضرت امام حسن نے ان کے ساتھ صلح ہی نہیں کرنی تھی۔۔۔۔۔
تو اپ کا صلح کرنا یہ دلالت کرتا ہے کہ دوسری طرف جو گروہ حضرت امیر معاویہ والا وہ بھی مسلمان لہذا اس بات کو بنیاد بنا کر امیر معاویہ پر طعن کرنا بھی درست نہیں ہے باقی جو لڑائی ہوئی مثال کے طور پر جو حضرت معاویہ کا اور حضرت علی کا جو جھگڑا تھا اس میں ذاتیات کا تو عمل دخل تھا ہی نہیں۔
مسئلہ حضرت عثمان غنی کے قتل کا قصاص تھا اور جنگ جمل جو ہوئی اس میں بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باہر نکلنا یہ بھی قتل عثمان کے قصاص کے لیے تھا باغی لوگ جو ہے نا وہ رپورٹیں ان کو یہ پہنچاتے تھے کہ حضرت علی جان بوجھ کر قصاص نہیں لے رہے اور یہ حضرات جو تھے ان کو یہ تھا کہ قصاص لیا جائے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا موقف یہ تھا کہ" قصاص فی الحال حالات نہیں ہیں اس کے لینے کے" حضرت علی نے پوچھا کہ کس نے قتل کیا بے شمار بندے کھڑے ہو گئے ہم نے حضرت عثمان غنی کو قتل کیا قتل کرنے والے تو چند تھے اب سب کا کیسے قتل عام کیا جاتا قصاص کے طور پر تو اس لیے حضرت علی فرماتے تھے کہ ابھی وہ حالات نہیں ہیں باغی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں
دوسری طرف دوسرے صحابہ تھے جن میں کچھ عشرہ مبشرہ بھی تھے جو جنگ جمل میں شامل ہوئے ان کا نظریہ تھا شرعا قصاص بنتا ہے لہذا قصاص لیا جائے تاخیر درست نہیں۔..
دونوں صورتوں میں حق علی کے ساتھ تھا اور ان حضرات نے جو موقف اپنایا یہ ان کا اجتہاد تھا تو اس میں جو خطا واقع ہوئی اس کو خطائے اجتہادی کہا جاتا ہے اور خطا اتحادی میں پکڑ نہیں ہوتی گناہ بھی نہیں ہوتا یہ سارا معاملہ تھا تو اس لیے ہمارا نظریہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کے بارے میں درست عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالی نے اچھائی کا وعدہ کیا ہوا ہے پھر رب فرماتا ہے رضی اللہ عنہم و رضو عنہ اللہ ان سے راضی ہو گیا وہ اللہ سے راضی ہو گئے
برحال ان کے أپس کے معاملات جھگڑے ان کو مشاجرات صحابہ کہا گیا ہے ہمیں اس بارے خاموشی کا حکم ہے۔۔
وما توفیقی الاباللہ
سعیداحمد قادری
اسلام گڑھ میرپور
+923455455015
0 Comments