
سورۂ فاتحہ ترتیب ِتلاوت کے اعتبار سے قرآن کی پہلی سورت ہے؛ جب کہ ترتیب نزولی کے اِعتبار سے
پانچویں ۔ یہ سورت مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ (زادہمااللہ شرفا وتعظیماً) یا دونوں میں نازل ہوئی۔
یہ وہ مختصر مگر حقائق و معانی سے لبریز، دل نشین اور جلیل القدر سورت ہے جس سے اس مقدس آسمانی صحیفے کا آغاز ہوتا ہے جس نے تاریخ اِنسانی کا رُخ موڑ دیا، جس نے فکرو نظرمیں انقلاب پیدا کردیا، اورجس نے قلب و روح کو نئی زندگی بخش دی۔
سورۂ توبہ کے علاوہ قرآن کریم کی ہر سورت کی اِبتدا’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے ہوتی ہے،اور حدیث شریف میں ہراچھے اور مفید کام کوبسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس سے نہایت لطیف پیرائے میں یہ تعلیم دینا مقصود ہے کہ کائنات کی ہر چیزکا وجود اللہ کی رحمتوں کا مظہر ہے؛ لہٰذا اِحسان شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ منعم ومحسن پروردگار کے اِنعامات واِحسانات سے فائدہ اُٹھاتے وقت اُس کے نام سے اپنی زبان کو ترو تازہ رکھا جائے۔
یہ سورۃ بڑی فضیلتوں کی جامع ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ توریت و زبور میں اس کے مثل سورت نہ نازل ہوئی۔ (جامع ترمذی)… ایک فرشتہ نے آسمان سے نازل ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوایسے نوروں کی بشارت دی جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہ ہوئے: ایک سورۂ فاتحہ،دوسرے سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ۔(صحیح مسلم ) … سورۂ فاتحہ
ہرمرض کے لیے شفا ہے (سنن دارمی)۔ سورۂ فاتحہ سو مرتبہ پڑھ کر جو دعا مانگے اللہ تعالیٰ قبول
فرماتاہے۔ (دارمی بحوالہ خزائن العرفان)۔
مفسرین کرام نے اِس سورہ کے بہت سے نام شمار کرائے ہیں ؛ لیکن اس کامشہور نام ’سورۃ الفاتحہ‘ ہے؛ کیوں کہ مصحف عثمانی کی اِبتدااس سورت سے ہوئی ہے۔ نیز نمازکی اِبتدابھی اسی سورت سے ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں بیان کیے جانے والے مضامین و مقاصد کا خلاصہ اس چھوٹی سی سورت میں ذکر کر کے دریاکوکوزہ میں بند کردیا گیا ہے۔ توحید و رسالت، آخرت ، اَحکام شریعت اور قرآنی نظام کے وفاداروں کاقابل رشک خاتمہ… اور اس کے باغیوں کا عبرتناک انجام ۔ یہ وہ پانچ مضامین ہیں جنھیں پورے شرح وبسط کے ساتھ قرآن کریم کی باقی ۱۱۳؍ سورتوں میں بیان کیاگیاہے اور یہی مضامین معجزانہ انداز میں انتہائی اختصارو جامعیت کے ساتھ اس سورت میں بیان کردیے گئے ہیں ۔
مفسرین کرام نے سورۃ الفاتحہ کو قرآن کریم کا ’مقدمہ‘ یا ’دیباچہ‘ بھی قراردیا ہے۔ اس کے مضامین کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ہر نماز میں اس کی تلاوت کا حکم دیا؛ تاکہ شب و روزمیں کم از کم پانچ مرتبہ پورے قرآن کاخلاصہ ہر مسلمان کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے۔ نیزسورۃ الکنز، سورۃ الحمد، سورۃ المناجات، سورۃ التفویض، سورۃ السوال، سورۃ الدعاء، سورۃ الصلوٰۃ،کافیہ، وافیہ، شافیہ، سبع مثانی، نور، رقیہ وغیرہ بھی اس کے مشہور ناموں میں سے ہیں ۔
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’میں نے سورۂ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کرلیا ہے، آدھی سورۂ فاتحہ میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے ہے؛ چنانچہ جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَکہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: حمدني عبديیعنی میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أثنیٰ علي عـبـدي یعنی میرے بندے نے میری ثنا بیان کی۔ جب مٰلِکِ یَومِ الدِّیْنِ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: مَجَّدَنِی عبديیعنی میرے بندے نے میری عظمت وبزرگی کا اِعتراف کیا۔ اور ایک بار فرمایا: میرے بندے نے
(خود) کو میرے سپرد کردیا۔ پھر جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ہٰذا بَیني و بینَ عَبْدي یعنی یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے۔ پھر جب بندہ اِہْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَسے آخر تک پڑھتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ہٰذا لعبدي و لعبدي ما سأل یعنی یہ میرے بندے کے لیے ہے، اور میرے بندے نے جو مانگا ہے میں نے اُسے عطا کردیاہے۔(۱)
سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور خوبیوں کے اِعتراف کے لیے ’حمد‘کاعنوان اختیارکیاگیا، اور تمام کائنات کی ربوبیت کو تسلیم کرنے کے لیے ’رب العالمین‘ کی صفت کا بیان ہے؛ کیوں کہ وہی تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور وہی اپنی پرورش سے اُن کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ آسمان، زمین، پہاڑ، سمندر، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان اور جن یہ سب اپنے وجود میں کسی موجد کے اور اپنی بقا میں کسی رب کے محتاج ہیں !۔ اس کائناتِ رنگ وبو میں جو حسن وجمال اورلطف وکمال ہے وہ اسی رب العالمین کا دیا ہوا ہے۔اور رب وہ ہوتاہے جو کسی چیز کو عدم سے وجود میں لائے اور اس کی زندگی کے ہر مرحلے میں اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور اس کی تربیت کے تمام وسائل مہیاکرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
لیکن خیال رہے کہ اس ’رب العالمین‘ نے اس دنیا کو عالم اَسباب بنایا ہے۔ آپ دیکھیں ناکہ ہم جب پانی پیتے ہیں تو ہماری پیاس بجھ جاتی ہے؛ مگرپیاس بجھانے والا کون ہے؟ بلا شبہہ وہ اللہ رب العزت ہے؛ توپانی کو اللہ نے پیاس بجھانے کا ذریعہ بنایاہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ چاہے توکوئی ہزار مرتبہ پانی پیے مگر اس کی پیاس نہ بجھے۔ اور اگر رب
العالمین چاہے تو بغیر پانی پیے ہی اس کی پیاس بجھ جائے؛ تواس نے اس دنیا میں ہر چیز کے لیے ایک وسیلہ ، سبب اور ذریعہ بنایاہے؛ لہٰذا اِسلامی عقیدہ یہی ہے کہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ انبیاواولیا اورملائکہ یہ اَسباب ہیں ، ذرائع ہیں اور وسیلے ہیں ۔
آپ دیکھیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہیں ، اللہ تعالیٰ فرشتوں کا محتاج نہیں ہے، وہ چاہے تو ان فرشتوں کے بغیرہی ساری کائنات کا نظام چلائے؛ لیکن اس کی مشیت اور اس کی مرضی ہے کہ اس نے یہ نظام فرشتوں کے سپرد فرمایا۔ تو اس سے معلوم ہواکہ دنیاوی یا دینی اُمور میں کبھی اَسباب سے مدد لینا یہ درِپردہ رب سے ہی مدد لینا ہے؛ لہٰذا بیمار کا حکیم کے پاس جانا، مظلوم کا حاکم سے فریاد کرنا، اور گنہگار کا محمدعربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا اس آیت کے خلاف نہیں ۔
روزِقیامت کا بادشاہ وہی ہے، اور مالی و جسمانی ہرطرح کی عبادت اسی کو زیبا ہے اوراِستعانت خواہ بواسطہ ہو یا بلا واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، حقیقی مستعان اورمشکل کشا وہی ہے؛ باقی آلات و خدام و اَحباب وغیرہ سب عونِ الٰہی کے مظہرہیں ، بندے کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کو کارکن دیکھے؛ لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ اولیا وانبیا سے مدد چاہنا شرک ہے، یقیناایک باطل عقیدہ ہے؛ کیوں کہ مقربانِ الٰہیہ کی اِمداد اَصلااِمدادِ الٰہی ہی ہے، یہ کوئی اِستعانت بالغیر نہیں ؛ ورنہ پھراسی قرآن میں :بھلاکیوں وارد ہوتا، اور احادیث مبارکہ میں اہل اللہ سے اِستعانت کی تعلیم کیوں دی جاتی!۔
خیال رہے کہ عبادت اور مدد لینے میں فرق یہ ہے کہ مدد تو مجازی طور پر غیر خدا سے بھی حاصل کی جاتی ہے؛ لیکن غیر خدا کی عبادت نہ توحقیقتاً کی جاسکتی ہے اور نہ حکماً۔ اگر عبادت کی طرح دوسرے سے اِستعانت بھی شرک ہوتی تو یہاں یوں اِرشاد ہوتا: ایاک نعبد
ونستعین؛مگر چوں کہ یہاں عبادت ومدد کو الگ الگ بیان کرنا مقصود تھا؛ اس لیے لفظ’ایاک‘ دوبار لاکر اس کے درمیان تمییزفرمادی۔(۱)
چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت طلب کرنے کا ذکر فرمایاہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی تمام نعمتوں میں سب سے اعلیٰ نعمت سیدھے راستے کی ہدایت ہے کہ ہر رکعت میں اس کی دعا کرائی گئی ہے، اور یہی ہدایت سورۂ فاتحہ کا مرکزی نقطہ ہے۔ ہدایت ہے کیا؟۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی منشاو مرضی کے مطابق سرانجام دینے کا سلیقہ ‘ہدایت کہلاتاہے۔ اور ہدایت انسان کو اپنی کوشش سے نہیں ملاکرتی، بلکہ رب کے فضل و کرم سے ملتی ہے؛ اس لیے بندہ اپنے پروردگار سے صراطِ مستقیم یعنی سیدھے راہ کی ہدایت کی بھیک مانگ رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ سیدھاراستہ ہے کیا؟ توقربان جائیں قرآن پر کہ اس نے اس کو تشنہ نہیں چھوڑا، بلکہ ’سیدھے راستہ‘ کا تعین خود ہی فرمادیا ہے کہ سیدھا راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل واِنعام ہواہے۔ اب پھر ذہن میں سوال اُبھراکہ آخر اللہ کے وہ اِنعام یافتہ بندے ہیں کون؟، توقرآن نے اسے بھی واضح کردیا۔سورۂ نساء کی آیت ۶۹ میں ارشاد ہواکہ وہ انعام یافتگان انبیاو صدیقین، اور شہداوصالحین ہیں ۔ اَب آپ خود سوچ لیں کہ کس راہ پر اِن نفوسِ قدسیہ کے نقوشِ پا ہیں ۔ حضرت صدیق وفاروق وعثمان وحیدر، صحابہ کرام، اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس جماعت کے پیشوا ہیں ؟ اور اولیاے کرام کا سلسلہ اُس وقت سے لے کر آج تک کس جماعت سے ظاہر ہورہا ہے؟؟۔
ان انعام یافتہ نفوسِ قدسیہ کے راستے پر چلنے کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو پورے طور پر اِطاعت الٰہی اور اس کے فیصلے پر راضی رہنے کے لیے تیار کرلے۔ اور ایسا ہوجائے کہ اگر اس کو یہ حکم دیا جائے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردے تو اس کی اس طرح اطاعت کرے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی۔ اور اگر خود اس کو ذبح ہونے کا
حکم دیاجائے تو اپنے آپ کو حضرت اِسماعیل علیہ السلام کی طرح ذبح کے لیے تیار پائے۔
اوراگر کسی بڑے منصب پر فائز ہونے کے بعد اس کو کسی سے علم حاصل کرنے کا حکم دیاجائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح طلب علم کے لیے روانہ ہوجائے، اور اپنی بڑائی کو عارنہ بنائے۔ اور اگر اس کو یہ حکم دیاجائے کہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے خواہ اس راہ میں اس کو آرے سے چیر دیاجائے تو حضرت یحییٰ اور زکریا علیہما السلام کی طرح قتل ہوجائے اور اُف نہ کرے۔ سخت موذی بیماریوں میں مبتلا کیا جائے تو حضرت اَیوب علیہ السلام کی طرح صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔
اگر قاضی اور حاکم بنے تو عدل واِنصاف کے سامنے جھکنے میں عار محسوس نہ کرے اور اگر اس کے بیٹے کا کیا ہوا فیصلہ اس کے کیے ہوئے فیصلے کے مقابلے میں صحیح ہوتو قبولِ حق کے راستے میں اَنانیت کو نہ آنے دے جیسے حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے کیے ہوئے فیصلے کے مقابلے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کو راجح قراردیا تھا۔ اور سلطنت وشاہی ملے تو حکومت کے رعب ودبدبہ میں اللہ کی یاد، عبادت وریاضت اور شب بیداری کو نہ بھولے جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظیم الشان حکومت ملنے کے باوجود اِطاعت الٰہی سے غافل نہ تھے، اور رکوع وسجود میں راتیں گزارتے تھے۔ اور اگر قضاے الٰہی سے کسی بلا اور مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو شکوہ وشکایت نہ کرے بلکہ اپنے قصورِ نفس کا اِعتراف کرے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل میں مصروف رہے جیسے حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں گرفتار ہوکر بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل کرتے رہے۔
اگر نوجوان حسین وجمیل بیٹا گم ہوجائے تو حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرح صبر جمیل کا پیکر بنا رہے اور اگر کوئی بااختیار واِقتدار حسین وجمیل عورت کسی مردِ جواں سال کو گناہ کی دعوت دے تو قیدخانے میں جانا منظور کرلے؛ مگر گناہ سے دامن بچائے رکھے، اورجب قید خانہ میں جائے تو وہاں بھی دعوت واِرشاد کو نہ بھولے
اور وہاں کے قیدیوں کو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کی دعوت دے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا اُسوہ اور نمونہ ہے اور ان کا راستہ ہے۔
یہ سابق انعام یافتہ لوگوں کی سیرتوں کا اِجمالی بیان ہے اور سب سے زیادہ انعام حضرت سید المرسلین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا گیا ہے اور ان کی سیرت تمام انبیاے سابقین کی سیرتوں کی جامع، کامل اورمکمل ہے اور یہ سارا قرآن انہی کی سیرت کا بیان ہے اور اس کی تفصیل آپ کی احادیث اور سنت میں ہے؛ اس لیے قرآن اور سنت ہی دراصل صراط مستقیم ہے، اس لیے جو شخص انعام یافتہ نفوسِ قدسیہ کے صراطِ مستقیم پرچلنا چاہتا ہو تو وہ قرآن وسنت کو دانتوں سے پکڑ لے اور ان پر پورا پورا عمل کرے۔(۱)
تو یہاں پردراصل انبیاوصدیقین اور شہدا و صالحین جو اپنے خالق سے وفاداریوں کی بنا پر اِنعامات کے مستحق قرار پاچکے ہیں ان کے راستے پرچلنے کا سوال کیا جارہا ہے۔ اور پھر اس کے بعد قرآنی نظام کے جو باغی ہیں یعنی یہود و نصاریٰ اور اُن کے اِتحادی، ان کے راستوں سے بچنے کی درخواست پیش کی جارہی ہے کہ مولا ہمیں ان کے راستے پر نہ چلا۔ اور پھر آخر میں ’آمین‘ کہہ کر اس عاجزانہ درخواست کی قبولیت کے لیے نیازمندانہ عریضہ پیش کیاجارہا ہے۔
ایک حدیث میں آتاہے کہ ’امام جب نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت ختم کرتاہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں ؛ لہٰذا تم بھی آمین کہاکرو؛ کیوں کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ‘۔
سورۂ فاتحہ چوں کہ دیباچہ قرآن بلکہ خلاصۂ قرآن ہے؛ اس لیے ہم نے چاہا کہ اسے ذرا تفصیل سے بیان کردیاجائے، تاکہ اس کے مضامین و مفاہیم خوب اچھی طرح ذہن نشین ہوجائیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خزائن العرفان،نور العرفان،بحذف واِضافہ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تبیان القرآن:۲۱۴تا۲۱۵۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تفسیر ابن کثیر:۱۰۷… تفسیر قرطبی:۹۴… روح المعانی:۳ …تفسیر رازی:۱۷۷… صحیح مسلم:۳؍۹۴ حدیث:۹۰۴…سنن ابودائود:۳؍۱۰۵حدیث: ۸۲۱… سنن ترمذی:۱۱؍۱۷۷حدیث: ۳۲۰۹… سنن نسائی:۳؍۴۸۴ حدیث:۹۱۷… سنن ابن ماجہ:۱۱؍۳۷۲ حدیث: ۳۹۱۶۔
0 Comments