تیسرے پارہ کے آٹھ رکوع تو سورۂ بقرہ پر مشتمل تھے، نویں رکوع سے سورۂ آل عمران کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ بھی قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ اس میں حضرت عمران کے خاندان کا قصہ بیان کیا گیا ہے؛ اس لیے بس اسی مناسبت سے اس کا نام’آل عمران‘ رکھ دیا گیا۔
ان دونوں سورتوں کے مضامین میں حددرجہ مناسبت پائی جاتی ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاان دو سورتوں کو ’زہراوین‘ (دوروشن چیزیں یا شمس وقمر) قرار دینا بھی ان کے درمیان مناسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ان دونوں سورتوں میں اہل کتاب سے خطاب ہے مگر سورۂ بقرہ میں زیادہ تر روے سخن یہود کی طرف تھا جب کہ آل عمران میں اصل خطاب نصاریٰ سے ہے۔ پھر یہ کہ دونوں سورتوں کا آغاز حروفِ مقطعات میں سے ’الم‘ کے ساتھ ہوا ہے اور دونوں ہی سورتوں کی ابتدا میں قرآن کی حقانیت واضح کی گئی ہے۔
یہ سورہ ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا
ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ اللہ ہیں ، کبھی کہتے کہ وہ ابن اللہ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا)کا ایک حصہ ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی زندہ جاوید ہے اس پر موت طاری نہیں ہو سکتی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہو کر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ تعالی کی مشابہت نہیں ، اللہ تعالی کھاتا پیتا نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں ۔ اللہ تعالی سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں ۔ اس پر وہ لاجواب ہو گئے۔
اِبتدا میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالی ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں ، جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں وہ ہمیشہ محکمات کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے دل میں کجی اور دماغ میں فتور ہوتا ہے وہ متشابہات کی غلط سلط تاویل کرنے اور ان کی مراد تک پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
جب کہ اللہ کے محبوب بندے آیاتِ متشابہات کی حقیقت کا کھوج لگانے کی بجائے توجہ آیاتِ محکمات پر مرکوز رکھتے ہیں ۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ پورا کلام اللہ کی طرف سے ہے اور ہماری عقل اس کا احاطہ کرسکے یا نہ کرسکے ہم ہر صورت میں اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔
تو قرآن کے اندر کلمۃ اللہ اور روح جیسے الفاظ‘ متشابہات کی قسم سے ہیں ، ان متشابہات کی بنیاد پر عقائد کی عمارت کھڑی کرنا پانی پر نقش بنانے کے سوا کچھ نہیں ، تو
حید اور ایمان کے دلائل بالکل واضح ہیں ان کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو بصیرت سے بالکل کورا ہو۔تیسرے پارہ کے آٹھ رکوع تو سورۂ بقرہ پر مشتمل تھے، نویں رکوع سے سورۂ آل عمران کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ بھی قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ اس میں حضرت عمران کے خاندان کا قصہ بیان کیا گیا ہے؛ اس لیے بس اسی مناسبت سے اس کا نام’آل عمران‘ رکھ دیا گیا۔
ان دونوں سورتوں کے مضامین میں حددرجہ مناسبت پائی جاتی ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاان دو سورتوں کو ’زہراوین‘ (دوروشن چیزیں یا شمس وقمر) قرار دینا بھی ان کے درمیان مناسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ان دونوں سورتوں میں اہل کتاب سے خطاب ہے مگر سورۂ بقرہ میں زیادہ تر روے سخن یہود کی طرف تھا جب کہ آل عمران میں اصل خطاب نصاریٰ سے ہے۔ پھر یہ کہ دونوں سورتوں کا آغاز حروفِ مقطعات میں سے ’الم‘ کے ساتھ ہوا ہے اور دونوں ہی سورتوں کی ابتدا میں قرآن کی حقانیت واضح کی گئی ہے۔
یہ سورہ ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا
ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ اللہ ہیں ، کبھی کہتے کہ وہ ابن اللہ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا)کا ایک حصہ ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے انہیں مسکت جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی زندہ جاوید ہے اس پر موت طاری نہیں ہو سکتی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہو کر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ تعالی کی مشابہت نہیں ، اللہ تعالی کھاتا پیتا نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں ۔ اللہ تعالی سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں ۔ اس پر وہ لاجواب ہو گئے۔
اِبتدا میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالی ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں ، جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں وہ ہمیشہ محکمات کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے دل میں کجی اور دماغ میں فتور ہوتا ہے وہ متشابہات کی غلط سلط تاویل کرنے اور ان کی مراد تک پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
جب کہ اللہ کے محبوب بندے آیاتِ متشابہات کی حقیقت کا کھوج لگانے کی بجائے توجہ آیاتِ محکمات پر مرکوز رکھتے ہیں ۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ پورا کلام اللہ کی طرف سے ہے اور ہماری عقل اس کا احاطہ کرسکے یا نہ کرسکے ہم ہر صورت میں اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔
تو قرآن کے اندر کلمۃ اللہ اور روح جیسے الفاظ‘ متشابہات کی قسم سے ہیں ، ان متشابہات کی بنیاد پر عقائد کی عمارت کھڑی کرنا پانی پر نقش بنانے کے سوا کچھ نہیں ، تو
حید اور ایمان کے دلائل بالکل واضح ہیں ان کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو بصیرتسے بالکل کورا ہو.(جاری ہے)۔
0 Comments