Meanings of shaheed
Imam Fakhruddin Razi رحمةاللہ علیہsayes
:الشھید فعیل بمعنی الفاعل
ھو الذی یشھد بصحةدین اللہ تارةبالحجة والبیان واخری بالسیف والسنان
ویقال للمقتول فی سبیل اللہ شھید من حیث انہ بذل نفسہ فی نصرةدین اللہ شھادتہ لہ بانہ ھوالحق (تفسیر کبیر ،جلد 3،صفحہ 263)
"شہید بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے اور شہید وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کے دین کی صحت و صداقت کی کبھی تو دلیل وبرھان اور قوت بیان سے اور کبھی شمشیر وسنان سے شہادت دے
اور اللہ کی راہ میں قتل ہونے والےکوبھی اسی مناسبت سے شہید کہا جاتا ہے
کہ وہ اپنی جان قربان کرکے اللہ کے دین کی حقانیت کی شہادت دیتا ہے"
اس معنی کے مطابق تسلیم کرنا پڑے گا کہ شہادت کا انعام وکمال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھا۔
اس لئے کہ اللہ تعالی کے دین کی حقانیت کی جس طرح آپ نے بے شمار دلائل اورروشن بیانات ومعجزات کے ساتھ شہادت دی ہے اور کسی نے نہیں دی۔
کون نہیں جانتاکہ اسی دین حق کی صداقت کی شہادت کے سلسلے میں ہی آپ نے مکہ مکرمہ میں مسلسل تیرہ سال تک سخت کرب ناک اذیتیں برداشت کیں۔گلیوں ،بازاروں اور طائف کے میدان میں پتھر کھائے اور نہایت نازیبا قسم کے کلمات سنے۔
"چنانچہ فرمایا
"جس قدر میں اللہ تعالی کی راہ میں ستایا گیاہوں کوئی پیغمبر نہیں ستایا گیا".
یہاں تک کہ وطن اور گھر بار چھوڑ دیا۔
مدینہ منورہ میں آکربہت سی جنگوں میں بنفس نفیس شرکت فرماکر شمشیر وسنان کے ساتھ بھی گواہی دی۔
دندان مبارک شہید ہوا،زخمی ہوئے
فرق رہ گیا صرف روح اقدس کے نکلنے کا اور وہ میدان جنگ میں اس لئے نہیں نکلی کہ
اللہ تعالی نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا:
واللہ یعصمک من الناس(المائدہ:67) "اور اللہ آپ کی جان کولوگوں سے بچائے گا"۔"
تواگر کسی جنگ میں آپ کسی کافر کے ہاتھ سے قتل ہوجاتے
اورآپ کی روح انور پرواز کرجاتی
تو کافروں کواللہ تعالی کے وعدہ اورقرآن کی تکذیب کا موقع مل جاتا
کہ اس نبی کے خدا نے تولوگوں سےان کی جان بچانے کا و عدہ کیاتھا توپھر اس نے کیوں نہیں بچائی۔
ہم نے تو فلاں جنگ میں ان کاکام تمام کردیا۔۔
۔۔
(معاذاللہ)ثابت ہواکہ شہادت جہری کی حقیقت آپ کی ذات پربدرجہ اتم پوری ہوئی۔
(شام کربلا مولانا شفیع اوکاڑوی رحمةاللہ علیہ)
0 Comments