میلاد مصطفے فی شرف حبیب کبریا/ قسط نمبر 2/ مولانا عبدالواحد قاضی مرحوم و مغفور

 





ربیع الاول  12بمطابق  20 اپریل 571ء کی صبح سعادت جب مدنیت و حضارت سے غیرذی زرع

 کھیتی کی سرزمین  مکہ میں عبداللہ بن عبدالمطلب کے یہاں 

آمنہ بنت وہب کے مشک معلی سے آفتاب رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور کیا۔

ایک اور روایت کے مطابق۔۔

 ربیع الاول  12بمطابق 20 اپریل 571ء  کی صبح سعادت تھی ۔خدایا وہ کیسی  سعادت افروز صبح تھی۔ جس نے کائنات  عرضی کورشدو ہدایت کےطلوع کامژدہ جانفزاسنایا-اوروہ ساعت کسی مبارک و محمودتھی جو معمودہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی۔عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سےنغمے گارہا تھاکہ وقت آ پہنچا کہ اب دنیا ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو۔ظلمت شرک وکفر کا پردہ چاک ہو اورآفتاب ہدایت روشن وتابناک ہو مظاہر پرستی۔باطل ٹھرے اور خدائے واحد لاشریک کی تو حید مقصد حیات قرار پائے۔ دنیا توکیاملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں  وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبدالمطلب کے گھرانے   سےجلوہ گر ہو گا۔کہ اس کی ولادت با سعادت کو خاص اہمیت دیتے اور  تاریخ  ولادت کو اپنے  سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کےنوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی  بنانےکا فیصلہ  کیا۔اسی کے یدقدرت نے ولادت با سعادت کیلئےایک معجزا نہ تاریخی نشان بھی ظاہر کر دیا اور وہ اصحاب فیل کا واقعہ تھا۔ معتبر اور مستند روایات شاھد ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت  اس واقعہ سے  چند ماہ بعد ہوئی۔

                                                  اس کا واقعہ یوں ہے

یہ واقعہ جن خصوصیات  کا حامل ہے ان کے پیش نظر یہ عرب کے لیے عموما اور اہل حجاز کے لئیے خصوصا نہایت عجیب اور حیرت انگیز تھا اور اس لئے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے یوں انہوں نے اس کا نام ہی عام الفیل رکھ دیا یعنی ہاتھیوں  والا سال۔

مگر وہ یہ سمجھنے  سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک  نشان ہے،اس جلیل القدر ہستی کے  ظہور کا ،جو ایک روز  انسانی آبادی  کو مرکز توحید اور قبلہ اول ابراہیمی پر جمع کردے گی اور اس کو غیراللہ  یعنی بتوں کی الودگیوں سے پاک کرکے توحید الہی  کے نغموں کے لئے مخصوص کرائے گی۔کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدا وحدہ لاشریک کی پرستش کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح کی اور کنواری مریم کے مجسموں کی پوجا کی جائے، بلکہ یہ تو خدا اورصرف ایک خدا کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا۔

                                                                    عام الفیل کا راز 

غرض بعثت کے بعد جب قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ کی ولادت کا راز سربستہ آشکارا  کردیا 

 تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرھہ  اور اس کے لشکر  سے کعبۃ  اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی

 کہ وہ وقت قریب آپہنچا ۔جب دوبارہ  یہ مقدس مقام خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے۔

  پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمی سے متصادم ہوگی وہ خود ہی پاش پاش ہوکر رہ جائے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                    ۔

                                  ابرھہ  مذہب کا عیسائی تھا ،اور،اہل عرب مشرک

،تو پھر کون کہہ  سکتا ہے کہ ابرھہ  اور اس کے لشکر کی بربادی  قریش  کی فتح  اور مدد کیلئے تھی

 نہیں ،بلکہ اس لیے سب  کچھ ہوا کہ مشیت الہی کے خلاف ابرھہ  کی خواہش تھی کہ یمن  صنعاء میں  جو خوبصورت گرجا  القلیس ( باپ،بیٹا، روح القدس) یعنی تثلیث کے عقیدہ کو فروغ  دینے کے لئیے بنایا گیا تھا ،وہ مرکز توحید کعبۃ  اللہ کی جگہ مرجع خلائق بنے ۔

 اس مقصد کی خاطر  کعبہ کو مٹانے کیلئےاس نے لشکرکشی کی۔

ادھر قریش   یعنی سارا عرب اس کے مدمقابل  عاجز اور درماندہ ۔

ادھرابرھہ وقت کے جنگی ساز و سامان اور اسلحہ کا مالک تھا 

 اور قریش

ان سب سے محروم  اور بے سروسامان 

تو پھر غیرت حق حرکت میں آتی ہے اور دنیا نے دیکھ لیا 

کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا

اور محور توحید کعبہ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا،۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں" میں نے ہاتھی  کے قائد یعنی فیل بان کو" جہنوں نے مکہ شریف پر حملہ کیا تھا اور وہ اندھے ہوچکے تھے اور وہ کسی وجہ سے بچ گئے تھے "مکہ شریف کی گلیوں میں مانگتے دیکھا۔


Post a Comment

0 Comments