اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ فرشتوں نے پکار کر سیدہ مریم کو کہاکہ اللہ نے آپ کو بلند مرتبہ عطا کیا ہے اور آپ کو پاکیزگی اور طہارت عطا فرمائی ہے اور آپ کو جہانوں کی عورتوں سے بلند فرمادیا ہے، اے مریم! آپ اپنے رب کی بندگی اختیار کریں ، اورباقاعدگی اور جماعت کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا کریں ۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کادل اس واقعہ کو قبول نہیں کررہا تھا لیکن اللہ تعالی نے ان کو بن شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا جو اللہ کے حکم سے کوڑھی اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتے۔ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے ۔حضرت عیسیٰ کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی مغالطے کا شکار ہوگئے اور ان کو اللہ کا بیٹا قرار د ینے لگے۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیااور کہا ہوجا تو وہ ہوگیا ۔
نجران کے عیسائی پادری حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عیسیٰ کی
ولادت کے بارے میں بحث کرنے کے بعد لاجواب ہوگئے؛ لیکن حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، جس پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مباہلے کا چیلنج دیا کہ تم اگر حق کو تسلیم نہیں کرتے تو اپنے نفوس، بیٹوں اور عورتوں کو لے کر آؤ، اور اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت علی ، حضر ت فاطمہ ، حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ میدانِ مباہلہ میں پہنچے تونجران کے پادریوں نے مباہلے کا چیلنج قبول کرنے سے انکار کردیا اورجزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔
حضورتاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ کتاب کومخاطب کرکے کہاکہ اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے تو آؤ ان نکات پر جوہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں اِتفاق کرلو یعنی عبادت صرف اللہ کی ہوگی،شرک کو ترک کرنا ہوگا اور اللہ کو چھوڑ کر بندوں کو رب ماننے کا شِعار بند کرنا ہوگا۔
اہلِ کتاب مشترکات
(Comonalities) پر بھی جمع نہ ہوئے جو اُن کی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت ہے ۔
اس سورت میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ کفا ر حضرت عیسیٰ کی جان کے درپے تھے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ آسمانوں کی طرف اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے ۔چنانچہ اللہ نے بعد ازاں اپنے وعدے کو پورا فرمایا اور حضر ت عیسیٰ کو زندہ اٹھالیا اور اب جناب عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے قبل دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینار پر اُتریں گے اوردجال کے فتنے کا خاتمہ کریں گے۔
آیت ۶۹ سے اہل ایمان کو آگاہ کیاگیا ہے کہ اہل کتاب خود تو گمراہ ہیں وہ تمہیں بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں یعنی ’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبیں گے‘۔ اہل کتاب کو ملامت کی گئی کہ تم کیوں جانتے بوجھتے اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہو، حق میں باطل کی آمیزش کررہے ہو اور حق کو چھپانے کے جرم کا ارتکاب کررہے ہو۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول اللہ ﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیا کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی
زندگی میں رسول اللہ ﷺ آجائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہِ انبیا پرلازم ہوگا ، چنانچہ سب نے اس کا اقرار کیا۔ اس پراللہ نے فرمایاکہ اب تم اس پر گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ اِس میثاق سے معلوم ہواکہ ختم الرسول ﷺ پر ایمان اور آپ کی نصرت وحمایت کا ہر نبی پابند تھا اور پھر اس کا عملی مظاہرہ شبِ معراج کو اس وقت ہوا ،جب آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاے کرام نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی اور آپ کے امام الانبیا ہونے کا عملی طورپر اظہارہوا۔
یہ مسلمانوں کے لیے بڑے شرف اور اعزاز کی بات ہے کہ ان کو رسول اللہ جیسا بے مثال رسول اور برگزیدہ پیغمبرملا، انھیں اس نعمت عظمیٰ اور احسانِ بے کراں پر اللہ جل مجدہ کا ہمیشہ شکر اَدا کرتے رہنا چاہیے۔
اِس پارے کی آخری آیات میں یہ بیان ہے کہ دینِ اسلام ایک تسلسل کا نام ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے ختم المرسلین ﷺتک چلاآرہاہے اور اسی دین کی طرف بلایا جارہاہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان تمام مخلوق کا جو بھی تکوینی نظام قائم ہے وہ سب خوشی یا ناخوشی اِس نظام اور اطاعت کا پابند ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس کی دعوت حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق،حضرت یعقوب اور ان کی اولاد اور حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام دیتے آئے ہیں ۔اور اسلام کے سواکسی اور دین کو ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا۔ایمان اور کفر دومتضاد حقیقتیں ہیں جو کبھی جمع نہیں ہوسکتیں ؛ پس اگر کوئی شخص اسلام کے سواکسی اور دین میں پناہ تلاش کرتاہے ،تو وہ خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فہم دین وقرآن کے ساتھ اسلامی نظام زندگی کے مطابق جینے مرنے اور سودی لین دین کی ہر نحوست سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلینﷺ۔
۔
0 Comments